وقت کا تقاضا: اپنے ووٹ، اپنی قیادت اور اپنی شناخت کو پہچانیے
تحریر: غلام مزمل عطا اشرفی — نور ادب
آج کے ہندوستان میں مسلم قوم ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ حالات بدل چکے ہیں، زمانہ آگے بڑھ چکا ہے، مگر ہماری اجتماعی غفلت، سیاسی بے توجہی اور فکری کمزوری ہمیں بار بار اس مقام پر لے آتی ہے جہاں ہم مظلوم بن کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی بےگناہ نوجوان جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں، کبھی گھروں پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں، کبھی مدارس اور مساجد کو شک کے دائرے میں لایا جاتا ہے، تو کبھی ہمارے روزگار، تعلیم اور شناخت پر حملے ہوتے ہیں۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہیں — جس کا مقصد ہمیں کمزور، منتشر اور بے حیثیت رکھنا ہے۔
سیاسی محرومی کا انجام
سیاست کسی قوم کی ڈھال ہے۔ جس قوم کے پاس اپنی سیاسی طاقت نہ ہو، وہ ہمیشہ دوسروں کی مرضی پر جیتی ہے۔ افسوس کہ ہم نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے اوپر خود ظلم کیا۔ ہم نے اپنے ووٹ کی طاقت کو معمولی سمجھا، اور یہی وہ غفلت ہے جس نے ہمیں بے آواز بنا دیا۔ آج پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے ہمارے مسائل ایوانوں میں نہیں سنے جاتے۔
ہم نے خود کو مذہبی، مسلکی، لسانی اور علاقائی خانوں میں تقسیم کر لیا ہے۔ اسی تقسیم نے ہمیں کمزور کیا، اور دوسروں کے لیے یہ آسان بنا دیا کہ وہ ہمیں اپنے ایجنڈے کے مطابق استعمال کریں۔ یہ وقت اس تقسیم کو ختم کرنے کا ہے۔ سیاست میں حصہ لینا کسی دنیا پرستی کا نام نہیں، بلکہ یہ اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے۔
اپنی قیادت کی ضرورت
جب تک ہم دوسروں کے کندھوں پر سوار رہیں گے، ہم کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنی قیادت خود بنانی ہوگی — ایک ایسی قیادت جو ہمارے درد کو سمجھے، ہماری زبان میں بات کرے اور ہمارے حق کے لیے ایوانوں میں آواز اٹھائے۔ اسد الدین اویسی جیسے رہنما اس وقت واحد ایسے سیاسی چہرے ہیں جو بے خوفی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل کو قومی سطح پر پیش کر رہے ہیں۔ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک علامت ہیں — خودداری، علم اور جرأت کی علامت۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سے ہر بات پر متفق ہوں، مگر یہ ضرور ضروری ہے کہ ہم ان کی پارٹی کو مضبوط کریں تاکہ ایک متحدہ مسلم سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آئے۔ ہمیں ہر مکتبِ فکر سے اوپر اٹھ کر قوم کی اجتماعی طاقت بننا ہوگا۔ سیاست میں اتحاد ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
اتحادِ ملت — وقت کی پکار
اتحاد کے بغیر ہم صرف کمزور آوازیں رہ جائیں گے۔ جب ہم ایک امت بن کر اپنی سمت طے کریں گے، تب ہی ہماری بات وزن دار ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف ایک پرچی نہیں، بلکہ ہماری عزت، شناخت اور بقا کا اعلان ہے۔ جب ہم متحد ہو کر ووٹ ڈالیں گے، تب کوئی حکومت ہمیں نظرانداز نہیں کر سکے گی۔
آئیے اپنی صفوں میں موجود اختلافات کو وقتی طور پر پسِ پشت ڈال کر ایک مقصد کے تحت جمع ہوں — قوم کی عزت، خودمختاری اور سیاسی استحکام۔ ہر مسلمان کا ووٹ قیمتی ہے۔ اگر وہ بکھر جائے تو دوسروں کے حق میں چلا جاتا ہے، اور اگر وہ ایک ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے۔
ہار بھی فتح بن سکتی ہے
یہ سوچ غلط ہے کہ اگر اویسی کی پارٹی ہار جائے تو ہمارا ووٹ ضائع ہو گیا۔ نہیں، بلکہ یہ بیداری کی علامت ہے۔ جب قوم ایک سمت میں قدم بڑھاتی ہے، تو وہ ہار بھی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ سیاسی عمل میں تسلسل سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آج اگر ہم متحد ہو گئے، کل کے نتائج یقینی طور پر بدل جائیں گے۔
عملی اقدامات
- ہر محلے، قصبے اور گاؤں میں سیاسی بیداری کے اجلاس منعقد کیے جائیں۔
- نوجوانوں اور خواتین کو سیاست میں شمولیت کے لیے تیار کیا جائے۔
- تعلیمی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے ووٹ کی اہمیت پر گفتگو عام کی جائے۔
- مسجد و مدرسہ صرف عبادت کے مراکز نہیں بلکہ بیداری کے مراکز بھی بنیں۔
- مختلف مکاتبِ فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر قومی یکجہتی کا پیغام عام کیا جائے۔
قوم کی تعمیر — اجتماعی ذمہ داری
قوموں کی تعمیر صرف نعرے بازی سے نہیں ہوتی بلکہ منظم منصوبہ بندی سے ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو باشعور نہ بنایا تو آنے والے زمانے میں ہماری تاریخ بھی مٹ سکتی ہے۔ سیاست، تعلیم، معیشت اور سماجی تنظیم — یہ چار ستون ہیں جن پر قوم کا وجود قائم رہتا ہے۔ ان میں سے ایک بھی کمزور ہو تو پوری عمارت لرزنے لگتی ہے۔
اویسی صاحب کی جماعت اس وقت وہ بنیاد فراہم کر رہی ہے جس پر ہم ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ ہمیں صرف ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں رہنا بلکہ اپنی موجودگی ہر سطح پر محسوس کرانی ہے۔ جب ہم ایوانوں میں اپنی نمائندگی بڑھائیں گے تو ملک کے فیصلوں میں ہمارا حصہ بھی بڑھے گا۔
اختتامیہ — بیداری کا وقت
مسلمانوں! یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ یا تو خاموش تماشائی بن کر ظلم سہتے رہیں، یا متحد ہو کر اپنی آواز کو ایوانِ اقتدار تک پہنچائیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اپنے ووٹ کی طاقت پہچانیں اور اپنی قیادت کو مضبوط کریں۔
اگر ہم آج بیدار ہو گئے تو کل ہمارے بچے باعزت زندگی گزاریں گے۔ لیکن اگر ہم نے آج بھی غفلت برتی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

Post a Comment